مہر خبررساں ایجنسی، سیاسی ڈیسک: نامہ نگار نفیسہ عبداللہی: دنیا نے ایک بار پھر یہ منظر دیکھا کہ ایک سال کی ہٹ دھرمی اور ایران کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کے دعوے کے بعد مغربی قوتیں بالآخر خاموشی سے کسی نتیجے پر پہنچنے پر مجبور ہوگئی ہیں۔
وہ بھی ایسے کہ کسی بھی میڈیا پروپیگنڈے کے بغیر مذاکرات کی میز پر آئے جو یقیناً اسلامی جمہوریہ ایران کی طاقت کو ظاہر کرتا ہے۔
نیویارک ٹائمز اخبار نے جمعرات کو مقامی وقت کے مطابق اعلان کیا کہ امریکہ اور ایران کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا ہے جس کے مطابق تہران کو انسانی ہمدردی کے مقاصد کے لیے اپنے منجمد اثاثوں میں سے 6 بلین ڈالر تک رسائی اور امریکہ کی طرف سے قید کئی ایرانیوں کی رہائی کے بدلے میں ایران بھی پانچ امریکی قیدیوں کو رہا کرے گا۔
اس خبر کی اشاعت کے بعد اقوام متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نمائندے نے تہران کی اوین جیل سے دو امریکی قیدیوں کی رہائی کی تصدیق کی ہے۔
یقیناً یہ خبر ایک بنیاد پرست امریکی ریپبلکن سینیٹر "ٹام کاٹن" کے غصے کا باعث بنی جس نے اپنے ایک بیان میں دوہری شہریت والے امریکی قیدیوں کی رہائی کا خیرمقدم کیا لیکن قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کو بائیڈن کا ایران کی دھن پر رقص قرار دیا۔
اسی دوران ایران کے امور کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی کے دفتر اور تہران کے امور کے لیے بائیڈن انتظامیہ کے سابق خصوصی نمائندے رابرٹ میلی نے تہران اور واشنگٹن کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کا خیرمقدم کیا۔
رابرٹ مالی نے اپنے ذاتی پیج پر اس بارے میں لکھا کہ یہ صرف پہلا قدم ہے۔ مہر خبر رساں ایجنسی کے مطابق، امریکی میڈیا میں انسانی حقوق کے اشارئے در اصل دوسرے آزاد ممالک اور اقوام کی رائے عامہ پر دباؤ ڈالنے کا ایک ذریعہ ہیں تاکہ ان پر قابو پایا جا سکے لیکن جب وہ ان اقوام یا ممالک کے اقتدار کو توڑ نہیں سکتے یا دباو ڈالنے میں ناکام رہتے ہیں پھر پسپائی اختیار کرتے ہوئے کم از کم کچھ منافع کمانے کے لیے مراعات دیتے ہیں۔
جب تہران اور ایران کی سڑکیں تلخ واقعات سے بھری ہوئی تھیں تو امریکی حکام نے تہران کے سقوط کے لیے بھرپور کوشش کی، یہاں تک کہ امریکی وزیر خارجہ اور اس ملک کے دیگر حکام نے ایرانی حزب اختلاف کے کچھ ارکان سے ملاقات کی اور ان سے ہاتھ ملایا اور یادگاری تصاویر کھینچیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ جانتے ہوئے کہ یہ سب کچھ خواہشات کا اظہار ہے، اور میدانی حقائق کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے، انہیں تہران کے ساتھ تعاون اور تعامل کرنا چاہیے اور کم از کم کچھ حقوق فراہم کرنا چاہیے جن کا تہران نے ذکر کیا ہے۔
بظاہر میڈیا اور رائے عامہ میں انہوں نے خود کو ایران کے ساتھ کسی بھی قسم کی بات چیت اور گفت و شنید سے دور ظاہر کیا لیکن عملی طور پر وہ ایران کے ساتھ ڈیل کے خواہاں تھے کیونکہ ان کے پاس ایسا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ انسانی حقوق کے شور شرابے کے باوجود مغرب کو شکست ہوئی اور بالآخر طاقت اور حقیقت کے سامنے تسلیم ہونے پر مجبور ہوا۔
2022ء کے فسادات کے آغاز کے ساتھ ایران کے خلاف مشترکہ جنگ میں مغرب کی ناکامی کے بعد، جس نے غیر ملکی اپوزیشن کی حمایت اور میدان میں اترنے سمیت مختلف ہتھیاروں کو استعمال کرتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران کو تنہا کرنے حتی سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن وہ اب سمجھ چکے ہیں کہ ایران کا سامنا کرنے کے لیے ان کا واحد راستہ سفارت کاری اور اسلامی جمہوریہ کو خطے میں ایک ابھرتی ہوئی اور بااثر طاقت کے طور پر قبول کرنا ہے۔
جیسا کہ ہنگاموں کے دوران امریکہ کی طرف سے کسی بھی قسم کے مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن جب عوام نے غیر ملکی اپوزیشن کا ساتھ نہیں دیا اور سڑکیں خاموش ہو گئیں تو ایران کے امور کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے رابرٹ میلی نے کہا "میں تعزیتی پیغام بھیجنے کا ذمہ دار نہیں ہوں"! یہ جملہ ایران میں ہونے والے تلخ واقعات اور گذشتہ سال کے موسم خزاں کی بدامنی کے بارے میں اپوزیشن کے دعوے کے جواب میں تھا۔
اس جملے کے ساتھ انہوں نے تمام معاملات پر امریکی مفادات کے تحفظ کو ترجیح دی۔ درحقیقت وائٹ ہاؤس کے لوگوں پر اپنے مفادات کا تحفظ فرض ہے اور ان کے خیال میں اسے انسانی حقوق، آزادی اور جمہوریت جیسی مطلوبہ چیزوں کے لیے امریکی مفادات کی قربانی نہیں دینی چاہیے۔ وہ میڈیا میں ظاہری نعروں کے لیے اپنے مفادات کو قربان نہیں کرتے اور انہوں نے یہ ثابت کر دیا۔ اہم بات یہ ہے کہ امریکی حکام انسانی حقوق کو ایران جیسے آزاد ممالک پر دباؤ ڈالنے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا خیال پیش کر رہے ہیں تاکہ اس دباؤ کو مراعات حاصل کرنے اور اپنے ناجائز مفادات کو مزید محفوظ بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
اسلامی جمہوریہ ایران اور اس کی طاقت و استقامت تمام داخلی ناہمواریوں کی وجہ سے گذشتہ شورش کو فرو کرنے کی انتظامی صلاحیت پر امریکی اور مغربی حکام اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ وہ ایران کے خاتمے کا خواب نہیں دیکھ سکتے۔ اسلامی جمہوریہ آج بھی طاقت کے ساتھ موجود ہے اور امریکہ کے خواب کو کبھی تعبیر نہیں ملے گی۔
اس لیے تمام تر ہنگامہ آرائی کے باوجود انہوں نے اپنے کچھ مسائل کے حل کے لیے خفیہ پیغامات دیے۔ کہا جاتا ہے کہ مصر کے سابق صدر انور سادات جو غداری اور صیہونی حکومت کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کرنے کی وجہ سے مصری اسلام پسند قوتوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے، اپنے ڈرائیور سے کہا کرتے تھے کہ اپنے بائیں سٹیئرنگ کو ٹکر مارے لیکن وہ مڑ گیا۔ یہ امریکن حکومت کے رویے کی واضح مثال ہے وہ لوگ جو ہمیشہ اپنے گائیڈ کو دوسری سمت بتاتے ہیں لیکن دوسری سمت کا انتخاب کرتے ہیں۔
امریکہ نے گذشتہ موسم خزاں میں کشیدگی سے بھرے دنوں کو ایران کے لئے چیلنج کھڑا کیا لیکن ایران کے ٹوٹنے کی خواہش رکھنے والوں میں سے ہر ایک نے خفیہ اور بالواسطہ طور پر ایران کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کرنے کے پیغامات بھیجے۔
بلاشبہ اگر ایران مضبوط اور طاقتور نہ ہوتا تو وائٹ ہاؤس اس کے سقوط کو سب سے سستا راستہ سمجھتا جو انہیں زیادہ سے زیادہ فوائد فراہم کرتا اور ایرانی شہروں کی گلیوں سے نتائج حاصل کر کے وہ جلد ہی اس راستے پر قابو پا لیتے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ انہیں اسلامی جمہوریہ کو قبول کرنا ہوگا اور ان کے پاس تناؤ کم کرنے اور تہران کو ضروری رعایت دینے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔
گذشتہ سال اسی دوران مذاکرات جاری تھے لیکن فسادات اور جیت کی غلط فہمی کی وجہ سے یہ عمل روک دیا گیا تھا۔ اگرچہ تھوڑی دنوں بعد امریکیوں کو احساس ہوا کہ انہیں افراتفری کے منصوبے سے کچھ حاصل نہیں ہو رہا اور انہوں نے خاموشی سے پچھلے دروازے سے مذاکرات کو متحرک کرنے کی کوشش کی لیکن فسادات کی سالگرہ کے ایک ماہ سے بھی کم عرصے بعد اس عمل کو حتمی شکل دینا ظاہر کرتا ہے کہ امریکی افراتفری کے منصوبے کی بحالی کے لیے بھی بے چین ہیں۔
ایران کے اثاثوں کو آزاد کرنے کے عمل کا آغاز
ایران کے نائب وزیر خارجہ علی باقری نے ٹویٹر پر ایک پیغام شائع کرتے ہوئے لکھا: ایران کے کئی ارب ڈالر کے اثاثوں کو جاری کرنے کا عمل، جو کئی سالوں سے غیر قانونی طور پر امریکہ کے قبضے میں ہیں۔ شروع ہوا ہے۔
انہوں نے تاکید کی: ایران نے اپنی ذمہ داریوں پر امریکہ کی پابندی کی ضروری ضمانت حاصل کر لی ہے۔ وزارت خارجہ نے امریکہ کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے ایک بیان میں اعلان کیا ہے: اسلامی جمہوریہ ایران کے اربوں ڈالر کے اثاثوں کو جاری کرنے کا عمل جو جنوبی کوریا میں غیر قانونی طور پر امریکہ نے کئی عرصے سے ضبط کر رکھا تھا رواں سال، شروع ہو گیا ہے. ایران نے اس سلسلے میں امریکہ کی اپنی ذمہ داریوں کی پاسداری کی ضروری ضمانت حاصل کر لی ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے مالی وسائل کا حصول کہ جنہیں غیر قانونی طور پر روک دیا گیا ہے اور امریکہ کی ظالمانہ پابندیوں کے سبب غیر ملکی بینکوں کی تشویش کی وجہ سے ان کا استعمال مشکل بنا دیا گیا تھا، ہمیشہ سے ایران کے ایجنڈے میں شامل رہا ہے۔
وزارت خارجہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ایرانی اثاثوں پر قبضے کو ختم کرنے اور انہیں استعمال کرنے کا طریقہ اسلامی جمہوریہ ایران کے اختیار میں ہے اور ان وسائل کو ملک کی مختلف ضروریات کے لیے خرچ کیا جائے گا جیسا کہ مجاز حکام نے طے کیا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ایرانیوں کے حقوق کا تحفظ وزارت خارجہ کے فرائض میں سے ایک ہے۔ اس تناظر میں، بے شمار بے گناہ ایرانی قیدیوں کی رہائی جو گذشتہ برسوں کے دوران امریکہ میں غیر قانونی طور پر گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالے گئے قیدیوں کی آزادی کےبسفارتی کوششیں سنجیدگی سے جاری ہیں۔
اس سلسلے میں امریکہ کی جانب سے غیر قانونی طور پر حراست میں لیے گئے متعدد قیدیوں کی رہائی جلد عمل میں لائی جائے گی۔
انہوں نے یاد دلایا کہ امریکہ کو مطلوب قیدی اب بھی ایران میں موجود ہیں۔
کون سے اثاثے جاری کئے جائیں گے؟
مہر نیوز کے مطابق معاہدے کے مطابق امریکا میں قید پانچ ایرانی اور ایران میں قید پانچ امریکی قیدیوں کا تبادلہ کیا جائے گا۔
نیز اس کے علاوہ عراق کے TBI بینک میں ایرانی رقوم کی خاصی رقم کے ساتھ، جنوبی کوریا میں بلاک کی گئی 6 ارب ڈالر کی ایرانی رقوم بھی جاری کی جائیں گی۔
یورپی بینکوں میں سے ایک میں ایرانی رقوم کی ایک اور رقم جاری کرنے کا عمل بھی شروع ہو گیا ہے۔ کوریا میں بلاک شدہ فنڈز کو سوئس بینک میں یورو میں تبدیل کرنے کے بعد سوئس بینک کی تصدیق کے ساتھ ہی یہ رقوم قطر منتقل کردی جائیں گی۔
معاہدے کے مطابق قیدیوں کو جیل کے علاوہ کسی اور جگہ منتقل کر دیا گیا ہے تاہم رہائی کی رقم ایرانی اکاونٹس میں جمع ہونے تک تبادلہ نہیں ہو گا۔ ایران کی جانب سے قطر میں مالی وسائل کی دستیابی کو یقینی بنانے کے بعد قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔
آپ کا تبصرہ